Pages

Thursday 14 February 2019

ABU BAKR SIDDIQ - 02

قریش کانیک سیرت جوان

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بعثت نبوی سے قبل اہل مکہ اگرچہ بت پرستی، کفر وشرک ،ظلم وستم، زناکاری وشراب نوشی، وحشت وبربریت اوران جیسے کئی دیگرمعاملات فاسدہ میں گھرے ہوئے تھے، مگر اس وقت بھی چندایک ایسے لوگ تھے جواِن تمام معاملات کو نہ صرف غلط سمجھتے بلکہ اِن کے خلاف حق کی تلاش میں سرگرداں بھی رہتے، ان ہی لوگوں میں ایک ایسا جوان بھی تھا جس کا شمار قریش کے شرفاء میں ہوتاتھا، اوراس کی نیک نامی کی وجہ سے چھوٹے بڑے سب ہی اس کی عزت کیاکرتے تھے، ایک دن اس کے ساتھ عجیب واقعہ پیش آیااورجس حق کی تلاش میں وہ سرگرداں تھا وہ حق اسے مل گیااور اس کی زندگی میں انقلاب برپاہوگیا۔ چنانچہ اس کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کو اسی کی زبانی پڑھیے:

میں کسی اہم کام سےیمن گیا،وہاں ایک بوڑھے عالم سے ملاقات ہوگئی اس نے مجھے دیکھ کر کہا:’’میرا گمان ہے کہ تم حرم (مکۂ مکرمہ)کے رہنے والے ہو؟‘‘میں نے کہا: ’’جی ہاں !میں اہل حرم سے ہی ہوں ۔‘‘اس نے کہا:’’تم قریش سے ہو؟‘‘ میں نے کہا:’’جی ہاں !میں قریش سے ہوں ۔‘‘ اس نے پھرکہا:’’تم تیمی بھی ہو؟‘‘ میں نے کہا:’’جی ہاں !میں تیم بن مرہ کی اولاد سے ہوں ۔مگر کیا بات ہے آپ یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں ؟‘‘اس نے کہا:’’مجھے تمہاری ایک خاص علامت کا علم ہے۔‘‘میں نے کہا:’’ وہ کیا؟‘‘ اس نے کہا:’’تم اپنا پیٹ دکھاؤ۔‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں !تم مجھے پہلے ساری بات بتاؤ،پھرمیں دکھاؤں گا۔‘‘اس نے کہا:’’میں اپنے صحیح اور صادق علم کے ذریعہ جانتاہوں کہ حرم میں ایک نبی مبعوث ہوگا اور دو شخص اس نبی کی مدد کریں گے۔ان میں سے ایک شخص مہمات کو سرکرنے اور مشکلات کو حل کرنے والا ہوگا او ر دوسرا شخص سفید رنگ کا نحیف وکمزور ہوگا اور اس کے پیٹ پرتل ہوگا،اس کی الٹی ران پر ایک علامت ہوگی۔‘‘میں نے پیٹ سے کپڑا ہٹایا تو اس نے میری ناف کے اوپر ایک سیاہ رنگ کا تل دیکھا۔ اس نے کہا: ’’رب کعبہ کی قسم! تم وہی ہو میں تمہارے پاس خود آنے والا تھا۔‘‘ میں نے کہا: ’’کس لیے؟‘‘اس نے کہا:’’ یہ بتانے کے لیے کہ تم راہ ہدایت سے نہ ہٹنا اور اللہ تعالینے تم کو جو نعمت عطاکی ہے اس کے معاملےمیں ڈرتے رہنا۔‘‘جب میں اس سے رخصت ہونے لگا تو اس نے کہا:’’مجھ سے کچھ شعر سنتے جاؤ۔‘‘ اس کے اشعار سن کرجب میں واپس مکۂ مکرمہ پہنچا تومیرے واقف کار چندسرداران قریش عقبہ بن ابی معیط ، شیبہ، ربیعہ، ابو جہل، ابو البختری وغیرہ ملے، انہوں نے کہا:’’تم یمن گئے ہوئے تھے یہاں ایک عظیم واقعہ ہوگیاہے؟ ابوطالب کے بھتیجے نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہاللہ کانبی ہے؟ 

اگرتم نہ ہوتے تو ہم اس معاملہ میں انتظار نہ کرتے اورخود ہی کوئی نہ کوئی فیصلہ کرلیتے لیکن اب تم آگئے ہو تواس کا فیصلہ کرنا تم پر موقوف ہے؟‘‘ میں نے ان کی بات سن کرانہیں احسن طریقے سے واپس کیا اور پھر(حضرت) محمد بن عبد اللہ(صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)کے متعلق دریافت کیا تومعلوم ہواکہ وہ (حضرت)خدیجہ کے گھر ہیں ،میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تووہ باہر آئے، میں نے کہا:’’ اے دوست!آپ نے اپنے آباؤ واجداد کادین کیوں ترک کردیا؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’میں تمہاری اور تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں ، تم بھی اللہ پر ایمان لے آؤ۔‘‘ میں نے کہا: ’’آپ کی ذات اگرچہ ایسی ہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا،اورنہایت ہی امانت دارہیں ،لیکن ظاہر ہے یہ بہت بڑا دعوی ہے اوریقینا ًغیر معمولیدعوے کے لیے غیر معمولی ثبوت کی حاجت ہوتی ہے،اگرچہ مجھے کسی ثبوت کی حاجت نہیںلیکن آپ صرف میرے اطمینان قلبی کے لیے میری ذات سے متعلقہ کوئی غیر معمولی بات بتائیں ؟‘‘انہوں نےکہا:’’ابھی جب تم یمن گئے تھے وہاں تم ایک بوڑھے شخص سے ملے تھے۔‘‘ 

میں نے کہا: ’’میں تو وہاں پرکئی بوڑھوں سے ملاہوں ۔‘‘انہوں نے کہا:’’ نہیں !میں اس بوڑھے کی بات کررہاہوں جس نے تمہیں کچھ اشعار بھی سنائے تھے۔‘‘ میں نے کہا: ’’آپ کو اس بات کی خبر کس نے دی؟‘‘انہوں نے کہا:’’مجھے اس معظم فرشتے نے خبر دی ہے جو مجھ سے پہلے آنے والے انبیاء کے پاس بھی آیا کرتا تھا۔‘‘ بس یہ سنتے ہی میں حیران وششدر رہ گیا کہ واقعی اس بات کاتومیرے علاوہ کسی کوبھی علم نہیں تھا،یقینا یہ اللہ کےسچے رسول ہیں ۔میں نے فورا کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ بلاشبہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک آپاللہ کے سچے رسول ہیں ۔‘‘پھرمیں تھوڑی دیر وہاں بیٹھ کرواپس آگیااور میرے اسلام لانے پر پوری وادی میں خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے بڑھ کر کوئی خوش نہیں تھا۔ 

(اسد الغابۃ، باب العین،عبد اللہ بن عثمان ابوبکر الصدیق، اسلامہ، ج۳، ص۳۱۸ )

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والاقریش کا یہ نیک سیرت جوان کوئی اور نہیں بلکہ خلیفہ اوّل،صدیق اکبر،یارِ غار،امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہتھے۔

No comments:

Post a Comment